کانپور: (محمد عثمان قریشی) آزادئ ہند اور آئین کی تخلیق میں مسلم قائدین کا کردار نہایت اہم اور منفرد تھا۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے دوران، ہندوستان کے مسلمان نہ صرف برطانوی حکام کے خلاف برسر پیکار تھے بلکہ وہ ایک ایسا معاشی، سماجی اور سیاسی نظام بھی قائم کرنا چاہتے تھے
جس میں تمام قوموں کے حقوق محفوظ ہوں، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہو۔ مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں اپنے خون اور پسینے سے حصہ ڈالا، اور آزادی کے بعد ایک ایسا آئین تخلیق کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا جس میں تمام اقلیتی طبقات کے حقوق کو تحفظ دیا جا سکے۔ مولانا ابو الکلام آذاد کا شمار برصغیر کی آزادی کی تحریک میں سب سے اہم اور عظیم قائدین میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف سیاسی قائد تھے بلکہ ایک عظیم عالم، ادیب اور مفکر بھی تھے۔ انہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کی آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی آزادی کا مقصد صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لیے تھا۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے سیاسی، ثقافتی اور سماجی حقوق کے حوالے سے ایک نیا وژن پیش کیا۔ 1930 میں ان کا خطبہ الہ آباد مسلمانوں کے حقوق کی اہمیت پر زور دینے والا تھا اور یہ دراصل ایک نظریہ پاکستان کی بنیاد بھی تھا۔ اگرچہ اقبال نے پاکستان کے قیام کی بات کی، لیکن ان کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ایک مضبوط مسلم ریاست کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا، نہ کہ فرقہ واریت یا تقسیم کی حمایت کرنا۔ میرزا اسماعیل بھی برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلم قائدین میں شامل ہیں۔ ان کی کوششوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزادی کی جدوجہد میں مزید تقویت ملی۔مذکورہ خطاب مولانا ابوبکر ہادی قاسمی کنوینر اصلاح معاشرہ شہری جمعیۃ علماء زون ۳ اتر پردیش نے یوم جمہوریہ کے پیش نظر اپنی نسل نو کو آزادیئ ملک میں ہمارے اسلاف کی قربانیوں سے روشناس کرانے کیلئے شہری جمعیۃ علماء کانپور کے زیر اہتمام و قاضیئ شہر کانپور حافظ عبد القدوس ہادی نائب صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش کے زیر سرپرستی میں منعقدہ ’تحفظ آئین ہند اور ہمارے اسلاف کی قربانیاں عشرے‘ کے آخری تقریب بمقام مسجد عائشہ صدیقہ ؓجامعہ عربیہ اشاعت قلی بازار کانپور میں قبل نماز جمعہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک ایسا آئین درکار تھا جو تمام اقلیتی طبقات کے حقوق کا تحفظ کرے، اور ہندوستان کی جامع ثقافت اور تاریخ کی عکاسی کرے۔ اس مقصد کے لیے مسلم قائدین نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر سید جعفر خان نے آئین ساز اسمبلی کے اجلاسوں میں حصہ لیا اور مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دینے والے مختلف نکات پیش کیے۔ انہوں نے ملک کے آئین میں مسلمانوں کے لیے مخصوص تحفظات کی بات کی تاکہ وہ آزادی کے بعد کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی نظام میں اپنے حقوق محفوظ رکھ سکیں۔
مولانا ابوالکلام آذاد نہ صرف آزادی کے دوران اہم شخصیت تھے بلکہ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔ انہوں نے آئین سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کا آئین تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے، خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ خان عبدالغفار خان جو کہ”سرحد گاندھی“ کے نام سے معروف تھے، نے بھی آئین ساز اسمبلی میں حصہ لیا اور مسلم اکثریتی علاقوں کی آواز بلند کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ہمیشہ ایک متحد ہندوستان کا خواب دیکھا اور اس کے آئین میں تمام اقلیتی گروپوں کے حقوق کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔
اگرچہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ایک دلت رہنما تھے، انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بھی قانون ساز اسمبلی میں آواز اٹھائی۔ ان کی اہمیت اس بات میں تھی کہ انہوں نے نہ صرف دلتوں کے حقوق کے لئے کام کیا بلکہ پورے ہندوستانی معاشرتی ڈھانچے میں تمام اقلیتی طبقات کے حقوق کو تحفظ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ہندوستان کا آئین، جو26 جنوری 1950 میں نافذ ہوا، مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ آئین ایک جمہوری ریاست کے طور پر تمام اقلیتی طبقات کو مساوات اور انصاف کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے۔ آئین میں درج”آرٹیکل 15 اورآرٹیکل25 جیسے آرٹیکلز مسلمانوں سمیت تمام اقلیتی گروپوں کے مذہبی حقوق، ثقافت اور تعلیم کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں لیکن آج ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر افراد ہمارے اکابرین کی ان قربانیوں سے بے خبر ہیں انہیں علم ہی نہیں لہٰذا ہمیں اپنی تاریخ پڑھنی ہوگی، اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا۔
[…] ہوگی کہ پارٹی اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرے. اور ریاست میں اقتدار حاصل کرے تاکہ سبھی کو انصاف دلانے کا خواب […]